اس دن میرے گاﺅں میں شادی تھی، 25 سالہ نوجوان لڑکی دلہن تھی لیکن کسی کو دولہا نہیں بنایا گیا تھا کیونکہ
وٹہ سٹہ اور کاروکاری جیسی قبیح رسمیں آج بھی پاکستان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ جائیداد کے لالچی بھائی یا دیگر رشتہ داروں کے لڑکیوں کی’قرآن مجید سے شادی‘ کروانے کے واقعات بھی بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس غیرانسانی رسم کو ’حق بخشش‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ زیبدہ علی نامی ایک سندھی لڑکی نے بھی اپنے گاﺅں میں ایسی ہی ایک شادی دیکھی جس کی روداد اس نے اقوام متحدہ کے انفارمیشن یونٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بیان کی ہے۔
زبیدہ علی نے بتایا کہ ”7سال قبل ہمارے گاﺅں میں ایک لڑکی کی شادی ہوئی۔ یہ لڑکی میری کزن فاریبہ تھی۔ فاریبہ کو دلہن تو بنایا گیا لیکن اس کے لیے کوئی دولہا موجود نہیں تھا۔ اس کی شادی قرآن مجید سے کروائی گئی تھی۔ فاریبہ بہت خوبصورت تھی اور اس وقت اس کی عمر 25سال تھی۔ اسے روایتی طور پر سرخ عروسی جوڑا پہنایا گیا، مہندی لگائی گئی اور زیورات پہنائے گئے۔ اس سب کے بعد اسے ایک سیاہ چادر اوڑھا دی گئی۔ شادی کی تقریب میں موسیقی بج رہی تھی، سینکڑوں مہمان تھے لیکن دولہا نہیں تھا۔“ا
نفارمیشن یونٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”پاکستان میں لڑکیوں کی قرآن مجید سے شادی کرنے کا سب سے بڑا مقصد جائیداد کی خاندان سے باہر منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔ جب کسی لڑکی کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا اور اس کی شادی خاندان سے باہر ہو جاتی ہے تو اس کے نام آنے والی جائیداد بھی دوسرے خاندان (دولہا کے خاندان) کو منتقل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ رشتہ دار زمین کو دوسروں کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لیے۔
اس لڑکی کی شادی قرآن مجید سے کروا دیتے ہیں۔جس لڑکی کی ایک بار قرآن مجید سے شادی ہو جائے وہ زندگی بھر کسی مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔ ایسی لڑکیاں اپنا زیادہ تر وقت قرآن مجید پڑھنے اور سلائی کڑھائی میں گزارتی ہیں۔
The post اس دن میرے گاﺅں میں شادی تھی، 25 سالہ نوجوان لڑکی دلہن تھی لیکن کسی کو دولہا نہیں بنایا گیا تھا کیونکہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2ADF90n
via Urdu Khabrain
Comments
Post a Comment