آخر تبدیلی ابھی تک آئی کیوں نہیں ؟ عمران خان اور انکے ٹائیگرز کے کام کی تحریر ، پڑھ کر کمنٹ ضرور کیجیے
لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) یہ پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے، ایک دینی سکالر کی محفل میں ہم چند دوست جایا کرتے۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ نماز مغرب کے بعد وہ صاحب آ کر اپنے گھر کی بیٹھک میں بیٹھ جاتے۔مختلف طبقہ فکر کے لوگ وہاں آتے رہتے۔ موضوعات کی کوئی قید نہیں تھی۔ سیاست سے مذہب، فلسفہ سے ادب اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی، ہمارے جیسے نوجوان خاموشی سے سنتے رہتے، کبھی کبھار کوئی سوال پوچھ لیتا۔
صف اول کے صحافی اور کالم نگار محمد عامر خاکوانی اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک سوال بہت بار پوچھا گیا کہ حضرت! یہ بتائیں ، تبدیلی کیسے آئے گی؟بگڑے حالات، ناگفتہ بہ ملکی معیشت اور گلے سڑے نظام کا رونا رویا جاتا۔ ٹیپ کا مصرع یہی ہوتا کہ تبدیلی کیسے آئے ، ہم کیسے تبدیلی لا سکتے ہیں ؟شرکا ءمحفل اس پر بات کرتے رہتے اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، یہ بحث پھیل جاتی ، آخر موضوع ہی بدل جاتا۔ ایک دن ہم اٹھنے لگے تو میزبان نے ہمیں اشارے سے روکا، تھوڑی دیر بعد وہ اٹھے اور ہم دو تین دوستوں کو باہر تک چھوڑنے آئے۔ہم موٹر سائیکلوں پر بیٹھنے لگے تو انہوں نے نرمی سے کہا،” بیٹا ! آپ لوگ ذہین اور پرجوش ہیں، جلدبازی میں کسی انقلابی جماعت کے ہتھے نہ چڑھ جانا۔ میں نے بہت سی قیمتی جوانیاں انقلاب کے رومان کی نذر ہوتی دیکھی ہیں۔ تبدیلی ہمیشہ بتدریج آتی ہے، انقلابی شارٹ کٹ کے چکر میں مارے جاتے ہیں۔حالانکہ معاشرے میں تبدیلی کے پیچھے بہت سے فیکٹرز ہوتے ہیں، یہ بڑی لہروں کی محتاج ہوتی ہے۔ اس لیے تین باتیں یاد رکھیں۔ کسی انقلابی یا خفیہ جماعت کا کبھی حصہ نہ بنیں، ہمیشہ پرامن دستوری جدوجہد کا راستہ اپنانا ہے کہ معاشرے اسی سے نموپاتے ہیں۔ دوسرایہ کہ ہمیشہ بتدریج تبدیلی یعنی ریفارمز کی حمایت کریں۔مرکزی سطح پر ایسی سوچ رکھنے والی جماعتوں کی حمایت کریں، اپنی بساط کی حد تک، اس سے زیادہ کے آپ جواب دہ نہیں۔
روزِ حشراستعداد کے مطابق عمل کی جوابدہی ہوگی۔ تیسرا یہ کہ اپنی اوقات کے مطابق وزن اٹھائیں۔ آپ اپنے دائرے کی حد تک تبدیلی لانے کے ذمہ دار ہیں۔یہ دائرہ چھوٹا مگر بہت اہم ہے۔ اسی کی دنیا اور آخرت میں جواب طلبی ہوگی۔ اپنے ذمے تمام حقوق ادا کریں۔ اپنے والدین، بزرگوں، بہن بھائیوں اور شادی کے بعد بیوی، اولاد کے حقو ق ادا کریں،معاملات میں کلیئر رہیں، کسی کا حق غضب نہ کریں، کم از کم انصاف اور زیادہ بہتر درجے میں ایثار کو اپنا شعار بنائیں۔ اپنے حلقے میں خیر کو پھیلائیں اور ہر اچھے کام کی کھل کر سپورٹ کریں۔ اس سے ملک کا نظام بدلے یا نہ بدلے، حکمران وہی رہیں یا اور آجائیں، اس سے قطع نظر آپ اپنے حلقے میں بامقصد تبدیلی لے آئیں گے۔ وہی مقصود ہے۔ “ پندرہ سولہ برس پرانا واقعہ ہے، الفاظ ممکن ہے کچھ اِدھر اُدھر ہوگئے ہوں، مگر مفہوم یہی تھا۔ ہم تینوں نے اپنی اپنی موٹر سائیکل کو کک لگائی اور روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک چائے پراٹھے والے ہوٹل پر رک کر چائے پی اوراس نصیحت پر غور کرتے رہے۔دوسرے دوستوں کا تو علم نہیں، مگر سچی بات ہے کہ میں اس دن یکسو ہوگیا۔ تبدیلی کا رومان اور خواہش تو اگرچہ ہمیشہ رہی اور میرے خیال میں ہر ایک کے اندر رہنی بھی چاہیے۔ خیر کے لیے یہی اکساتی اور عمل کے میدان میں لے جاتی ہے۔ یہ بات مگر سمجھ آ گئی کہ انقلابی جماعتوں اور انقلاب سے دور کی سلام دعا بھی نہیں رکھنی۔
انہی محفلوں میں ایک بار کسی نے واقعہ سنایا کہ فیض احمد فیض سے کسی محفل میں ایک پرجوش انقلابی نوجوان نے بے تابی سے پوچھا، فیض صاحب ! یہ انقلاب آخر کب آئے گا؟ فیض صاحب نے سگریٹ کا کش لیا اور اپنے مخصوص ٹھنڈے ٹھار دھیمے لہجے میں بولے، برخوردار ! آ جائے گا، ایک نہ ایک دن آ ہی جائے گا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ انقلابی نوجوان پر جواب سن کر کیا گزری ہوگی؟ انقلابیوں کے بارے میں ہارون الرشید صاحب نے ایک بار کمال کا جملہ کہا،کہنے لگے، انقلابی وہ بے وقوف ہیں جو ہیٹر سے گندم کی فصل پکا کر اسے فروری کے مہینے میں کاٹنے کا سوچتے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا پر خاص طور سے تبدیلی کی خواہش رکھنے والے ایسے بھولے بھالے انقلابیوں سے روز واسطہ پڑتا ہے۔ تحریک انصاف میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، جماعت اسلامی سے وابستہ نوجوان بھی انقلابی رومانویت سے معمور ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کے بے پناہ اخلاص، کوششوں اور منظم جدوجہد کے باوجود تبدیلی ابھی تک آ کیوں نہیں رہی؟ جماعت والوں کو تو خیر ایک اضافی سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ لوگ انہیں ووٹ کیوں نہیں ڈالتے؟
اگلے روز ایک صاحب نے بڑے پرجوش اندا ز میں ان لوگوں کو بھی بے بھاؤ کی سنائیں، جن کے علاقوں میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت نے بہت سے چیریٹی کام کر رکھے ہیں، وہ لوگ ان پراجیکٹس سے تومستفید ہو رہے ہیں، مگر( کم بختوں کو) ووٹ ڈالتے وقت جماعت اسلامی بھول جاتی ہے۔ پوسٹ لکھنے والے صاحب نے اپنے نام کے ساتھ بھی بلخ وبخاراکی مناسبت سے لاحقہ کا اضافہ کر رکھا تھا۔ تان اس پر ٹوٹی کہ جماعت اسلامی کو ایسی جگہوں پر خدمت کے کام کرنے بند کر دینے چاہئیں اور وہ صرف سیاست کرے۔ بھولے بادشاہ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ خدمت کے کام اللہ کے لیے کیے جاتے ہیں، ووٹ کے لیے نہیں اور اگر کسی کے ذہن میں یہ نیت تھی تو ووٹ تو خیر کیا ملنا ،اجر بھی برباد ہوگیا۔ تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کوبنیادی نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ تبدیلی کاپہلا فیز فوری شروع ہوسکتا ہے، اگر وہ اپنے آپ کو بدل ڈالیں۔معاشرے کا ایک چھوٹا دائرہ تو اسی وقت تبدیلی کی زد میں آ جائے گا۔ ایک دکان دار اگر ایمانداری سے لین دین شروع کر دے، اپنے گاہکوں کو لوٹنا ، ناجائز منافع لینا چھوڑ دے تو وہ درجنوں، سینکڑوں لوگوں کے لیے آسانی پیدا کر دے گا۔ قصاب پانی ملا گوشت بیچنے کے بجائے ایمانداری اپنائے، مکینک، پلمبر ، الیکٹریشن حضرات انصاف اور دیانت داری سے اپنا کام کریں، سرکاری دفاتر میں سائلین کو تنگ کرنے کے بجائے ان کی زندگیاں آسان بنائی جائیں، ڈاکٹر دردمندی سے مریضوں کا علاج کرے،نرس، ڈسپنسر، پیرا میڈیکل سٹاف مریضوں سے صرف نرمی اور شائستگی کے ساتھ بات کر لے تو کتنی دعائیں انہیں مل جائیں۔اخبار نویس ، وکیل ، انجینئر اور دیگر شعبوں کے لوگ اچھے طریقے سے اپنا کام کر لیں،معاملات میں دیانت اور فیئررہیں تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ان کے آس پاس کس قدر خوبصورتی بکھر جائے۔
اپنے انفرادی معاملات میں بہتری لانے کے ساتھ یہ لوگ مقامی سطح پر تبدیلی لانے والے ہر اچھے کام کا حصہ دار بن جائیں۔ گلی، محلے ،یونین کونسل کی سطح پر کچھ نہ کچھ اچھا کام کرنے والے،ایسا سوچنے والے ضرورہوتے ہیں۔گلی کی صفائی، سٹریٹ لائٹس ٹھیک کرانا، محلے کی شادی بیاہ میں ہاتھ بٹانا، کسی بھی نوعیت کا چیریٹی کام وغیرہ۔ ان کا حصہ بنیں، سپورٹ کریں ، اگر حمایت نہیں کر سکتے تو کم ازکم مخالفت تو نہ کریں، خاموشی سے ایک طرف ہوجائیں۔ اس سے بڑی سطح پر اچھا کام کرنے والی خیراتی اداروں، تنظیموں کی حمایت کریں۔ اپنے عطیات انہیں دیں، مثبت تجربات سے دوسروں کو آگاہ کریں، ترغیب دلائیں۔ اخوت، الخدمت، غزالی سکول ٹرسٹ، پی اوبی ، کاروان علم فاؤنڈیشن جیسے اداروں کے بارے میں دوسروں کو بتائیں،خود ان کا حصہ بنیں۔ ایسے بہت سے اور بھی ادارے ہوں گے، انہیں مضبوط بنائیں۔ تیسری اور مرکزی سطح پر ملک میں تبدیلی لانے والی سیاسی جماعتوں کی حمایت کریں۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانے والوں کو مضبوط کریں۔میرا اشارہ کسی خاص جماعت کی طرف نہیں۔ جو بھی سیاسی جماعت آپ کو اپنے سیاسی نظریہ سے ہم آہنگ لگتی ہے، اس کی حمایت کریں، مگراپنے پسندیدہ لیڈروں پر یہ دباؤ ڈالیں کہ وہ ملک میں مثبت ریفارمز لائیں، لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہو، انہیں ریلیف دیا جائے۔
اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر مرکزی سطح پر تبدیلی کسی وجہ سے نہیں آتی یا اس میں تاخیر ہوجائے تو کم ازکم ہم اپنے قریبی دائرے میں تو چیزیں بہتر کر سکتے ہیں۔ وہاں تو لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے فنڈز کی دستیابی یا امیر ہونا ضروری نہیں۔ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں، ان کی آمدنی محدود ہے، مگر وہ ہر سال دو ڈھائی ہزار روپے کی کمیٹی ڈالتے ہیں۔ اس سے انہیں پپینتیس چالیس ہزار روپے اضافی مل جاتے ہیں۔وہ انہیں خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ سادہ سا انہوں نے طریقہ نکالا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے اپنی گلی، محلے کے ایک گھر میں یوپی ایس لگوا دیتے ہیں، پچیس ہزار کا یہ پیکیج ہے۔ وہ ترجیحاً یہ دیکھتے تھے کہ جہاں پڑھنے والے بچے بچیاں ہوں،وہاں پہلے لگوا دیا۔ کہتے کہ اس سے ان کی زندگی میں تو تبدیلی آ جائے گی، بچے سکون سے پنکھے میں بیٹھ کر پڑھ سکیں گے۔باقی ماندہ پیسوں سے وہ کسی ایک مستحق بچے ، بچی کے سکول، کالج میں داخلہ کے اخراجات ادا کر دیتے ہیں۔ایسے بے شمار لوگ ہیں جو صرف گفتار نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا طریقہ کار ہوسکتا ہے۔ آپ لوگ اپنے ماحول، حالات کے مطابق مدد کرنے کے نئے طریقے ایجاد کر سکتے ہیں۔ اصل کام باتیں کرنے کے بجائے عملی قدم اٹھانا ہے۔معاشرے کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے۔
The post آخر تبدیلی ابھی تک آئی کیوں نہیں ؟ عمران خان اور انکے ٹائیگرز کے کام کی تحریر ، پڑھ کر کمنٹ ضرور کیجیے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2EmZvJA
via Urdu Khabrain
Comments
Post a Comment