ممبئی حملوں کے بعد انڈیا کتنا محفوظ ہے؟

سنہ 2008 میں 26 نومبرکو ہونے والے ممبئی حملوں کے بعد انڈیا میں ساحلی سیکیورٹی اور پولیس کی طاقت بڑھانے کے لیے کئی چھوٹی بڑی کوششیں کی گئیں۔

جدید ہتھیاروں کی خریداری کے علاوہ خصوصی سیکیورٹی فورسز بنائی گئیں۔ کئی ایسی اشیا پر رقم خرچ کی گئی جن کا کبھی استعمال نہیں ہوا۔ جیسے کئی بڑے شہروں میں آرمڈ کاریں خرید کر کھڑی کر دی گئیں جن کا بامشکل ہی استعمال ہوتا ہے۔ سیکیورٹی سے متعلق زیادہ تر غیر ضروری اشیا اس لیے خرید لی جاتی ہیں کیوں کہ ان کی خریداری کا فیصلہ سیکیورٹی کے ماہر نہیں کرتے۔ کمپنیاں ان اشیاء کو خاص بتا کر پیش کرتی ہیں اور خریداری کا فیصلہ کرنے والوں کو ان کی سمجھ نہیں ہوتی ہے۔ بیشتر جن چیزوں کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے انہیں اچھا سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس طرح کی خرید و فروخت میں بدعنوانی کا موقع بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے پوری عمارت کے ایک دروازے پر لوہے کا تالا لگا دیا ہو لیکن اگر باقی کھڑکی دروازے کھلے ہیں تو ان سے کوئی بھی داخل ہو سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال اس طرح خریدی گئی اشیا کا بھی ہوتا ہے۔

سسٹم کی کمی

انڈیا میں اس وقت سیکیورٹی سے متعلق کوئی منظم سسٹم نہیں ہے۔ ممبئی حملوں کے لیے حملہ آوروں نے سمندری راستے کا انتخاب کیا۔ اس حملے کے بعد ساحلی سیکیورٹی کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ اس کے بعد کچھ ساحلی تھانے اور گشت کے لیے کشتیاں خریدی گئیں۔ لیکن ان کشتیوں کو چلانے والے بھرتی نہیں کیے گیے۔ کشتیاں وہاں کھڑے کھڑے ہی خراب ہو گئیں۔ ساحلی سیکیورٹی یکجا نہیں ہے۔ یہ بھی نظر رکھنا ضروری ہے کہ کون کون سی کشتیاں غیر قانونی طور پر سمندر میں گھوم رہی ہیں۔ ریڈیو سگنل پکڑنے کے لیے کشتی میں ٹرانسپونڈر ضروری ہے۔ حکومت نے قانون بنایا کہ بیس میٹر سے لمبی کشتی میں ٹرانسپونڈر لگایا جانا چاہیے۔ یہ حکم آدھی ادھوری صورت میں ہی عائد ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا دہشتگرد صرف 20 میٹر سے لمبی کشتی لے کر ہی ملک میں داخل ہو سکتے ہیں؟

ذمہ دار کون؟

سیکیورٹی کی مضبوطی کے لیے سیکیورٹی فورسز کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہوگا کیوں کہ بجٹ سے متعلق فیصلے انتظامیہ یا حکومت ہی لیتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز مشورے ضرور بھیجتی ہیں لیکن فیصلے کیے جاتے وقت بجٹ سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ بجٹ کے مطابق ہی سے دوسری باتوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ حالانکہ ضروری یہ ہے کہ پولیس اور انٹیلیجنس سروسز کو مضبوط بنایا جائے۔ اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ ایسے میں انڈیا کی انٹیلیجنس ایجنسی کیسے کامیاب ہے؟ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کل آٹھ سے نو ہزار کے درمیان افراد کام کرتے ہیں۔ حالانکہ اتنے بڑے ملک کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ داخلی انٹیلیجنس کے لیے ذمہ دار آئی بی کے پانچ سے سات ہزار سے زیادہ ایجنٹ نہیں ہوں گے۔ ساتھ ہی کوئی صوبائی ڈیٹا بیس بھی نہیں بنا ہوا ہے۔

کرمنل ڈیٹا بیس سسٹم پہلی بار امریکہ میں 1968 میں شروع ہوا تھا جو آج تک انڈیا میں شروع نہیں ہو سکتا ہے۔ مشرقی ممالک میں ٹریفک قوانین پہلی ہی بار توڑنے پر آن لائن ڈیٹا بن جاتا ہے اور کوئی جرم کرنے پر اس ڈیٹا بیس کو چیک کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں کوئی مجرم پہلی بار پکڑا جاتا ہے تو بری ہونے کے بعد اس کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ ڈیٹا بیس سسٹم کی کمی ہے۔ دہشت گردوں کے کام کرنے کے طریقہ میں تبدیلی آئی ہے۔ ٹیکنالوجی نے بھی اس میں مدد کی ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کا ایک ممبر دوسرے کو نہیں پہچانتا ہے۔ کسی کو پکڑا جائے تو وہ دوسرے شخص کے بارے میں نہیں بتاتا ہے۔ یعنی ان کی پوری چین کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بہت مشکل ہو تا ہے۔

کئی ممالک دہشتگردی کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس میں فوج کا پیش پیش رہنا بھی بڑی وجہ ہے۔ یہ بھارت میں نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف کارروائی میں پورے گاؤں خالی کروا دیے جاتے ہیں۔ جس کے بعد فوج آگے رہتی ہے اور گاؤں تباہ کر دیے جاتے ہیں۔ بھارت میں ایسی مثال دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ انڈیا کی حکمت عملی انسانیت کے قریب ہے۔ یہاں گاؤں تباہ کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ حالانکہ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں۔ اور ہر جگہ فوج کے استعمال کی مخالت بھی ہوتی رہی ہے۔

The post ممبئی حملوں کے بعد انڈیا کتنا محفوظ ہے؟ appeared first on Urdu Khabrain.



from Urdu Khabrain http://ift.tt/2ClvsUL
via Urdu Khabrain

Comments

Popular posts from this blog

انگلینڈ کے کسی بھی دور کے 11 بہترین ٹیسٹ کرکٹرز

فلپائنی لڑکی اپنے پیٹ پر چپکے دو اضافی بازوؤں سے پریشان