اصل شناخت ، وقار و احترام

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ملتا جلتا مضمون
میگزین کو اپنی تمام تر جولانیوں اور تابناکیوں سمیت ہضم کرچُکے، مطلب پڑھ چُکے ہیں۔ زیادہ تابناکیاں ماڈل گرل کے خیرہ کن حُسن کی وجہ سے تھیں۔ جس ہفتے آ پ کا قلم حرکت میں آتا ہے، ماڈل بھی زبردست ہی ہوتی ہے۔ ملبوسات، جیولری، جوتے، میک اپ، ہیئر اسٹائل، ناز، انداز، حُسن، زیبائی سب ہی لاجواب۔ نجمی صاحب کا قلم یقیناً ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنے گا۔ رائو شاہد کے مہنگائی سے لڑنے کے چند نسخے یقیناً آزمودہ ہوں گے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ فی الحال یہ کام مغربی ممالک میں اچھے طریقے سے ہو رہا ہے۔ منوّر راجپوت کراچی پریس کلب کے بارے میں تفصیلی مضمون لے کر آئے، ویسے چند ہفتے قبل بھی اس سے ملتا جلتا مضمون چھپ چکا ہے۔ خیر، مضمون معلوماتی تھا اور قدیم طرز کی عمارت بھی بہت اچھی لگی۔ عرفان جاوید کا قلم مشہور شخصیات کے بارے میں مثبت ترین رائے زنی کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، وہ قاری کو بور بالکل نہیں ہونے دیتے۔
(مصباح طیب، سرگودھا)
ج:ہم نے مُلک کےبڑے شہروں میں موجود پریس کلبز پر مضامین کی اشاعت کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور یہ ملتے جلتے مضامین اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، کیا سمجھیں…؟؟
آج معلوم ہوا
تازہ سنڈے میگزین کے ’’خانوادے‘‘ سلسلے میں رئوف ظفر کا مضمون ’’باہمّت باپ، باکمال بیٹیاں‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ ہمیں تو آج معلوم ہوا کہ بشریٰ انصاری، احمد بشیر کی صاحب زادی ہیں۔ ’’سُرخاب‘‘ میں عرفان جاوید موجود تھے اور جون ایلیا پر قلم کُشائی فرما رہے تھے۔ عالمی افق میں منوّر مرزا نے عالمی سیاست کا اچھا جائزہ لیا۔ انٹرویو میں اے ڈی بلوچ کا انٹرویو خوب رہا۔ ماڈل نیہا لاج کا شوٹ بھی پسند آیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر ایوب عباسی نے حبیب جالب پرمختصر مگر معلوماتی مضمون لکھا۔ ڈائجسٹ کی دونوں کہانیاں بھی اچھی تھیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج:شُکر ہے آپ نے مضمون پڑھ لیا، وگرنہ تو عُمر بھر کسی مغالطے ہی میں رہتے۔
کب دل میں اترتا ہے؟
تازہ شمارے پر حرف تمنّا چاہوں گا۔ اس مرتبہ سرِورق سادہ، مگر نفیس و عُمدہ تھا، البتہ مصرع ہمیشہ کی طرح شوخیاں ہی بکھیر رہا تھا۔ ’’ناز، انداز، حُسن، زیبائی…‘‘بہت خوب۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے رشتے داروں کے حقوق اور حُسنِ سلوک پر ایک روشن، نکھری نکھری تحریر مرتّب کی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمد شاہد اقبال نے مہنگائی کے عفریت کے آگے بند باندھنے کے لیے چند مفید اور زبردست تجاویز پیش کیں۔ ’’ہمارے ادارے‘‘ میں کراچی پریس کلب کی مفصّل رُوداد سے خُوب محظوظ ہوئے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر نورین رضا کا صحت سے متعلق اور روحی معروف کا آٹزم کے حوالے سے مضمون معلوماتی تھا۔ سُرخاب کے دامن میں جون ایلیا سمٹے نظر آئے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر خُوش نُما، شوخ و شنگ تحریر کا جلوہ بھی خُوب تھا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں جیو نیوز کی خوش ادا اینکر، حفظہ چوہدری کی دل چسپ اور سیدھی، سچّی باتیں بہت بھلی لگیں۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ کا صفحہ کافی عرصے بعد جریدے کی زینت بنا۔ اب دیکھیں، ’’جو دل میں اتر جائے‘‘ کب میگزین کے دل میں اترتا ہے؟ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کےچاہتوں، محبتوں اور خلوص سےبھرےنامےتو ہمیشہ ہی کی طرح پورے جریدے میں امرت رس گھولتے محسوس ہوئے۔
(ملک محمد رضوان، محلّہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹائون، لاہور)
ج:دیکھیں کبھی نہ کبھی وہ بھی دل میں ضرور اترے گا۔
اصل شناخت ، وقار و احترام
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات کی کیا توصیف کروں، محمود میاں نجمی نے بہت بڑی ذمّے داری اپنے کاندھوں پر اٹھالی ہے۔ خدا کرے، نسلِ نو ہدایت پائے اور خاص طور پر، جو آج کی عورت نے اپنی اصل شناخت، وقار و احترام، اپنا دوپٹا اُتار کر ایک طرف پھینک دیا ہے، وہ کسی طرح تَن پر واپس آ جائے۔ پیارا گھر، آپ کا صفحہ، ہمیشہ سے پسندیدہ ہیں۔ اس بار ڈائجسٹ اور یادداشتیں بھی پسند آئے۔ ’’متفرق‘‘ میں رائو محمد شاہد اقبال کی تحریر اچھی تھی۔ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کہانیاں تو اکثر ایسی ہوتی ہیں کہ مدّتوں دل و دماغ پر چھائی رہتی ہیں۔ مجموعی طور پر ’’سنڈے میگزین‘‘ اِک جامِ جہاں نُما ہے۔ بس، کبھی کبھی یک سانیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ (ممتاز سلطانہ،پولیس لائن، حیدر آباد)
ج: عورت کے، عورت ہونے کی اصل نشانی، اُس کی ’’اوڑھنی‘‘ کی واپسی کے لیے تو ہم بھی تہہ دل سے دعا گو ہیں۔
کتنی نمازیں…؟؟
’’سب سے پہلے تو ظہر کی نما ز ادا کرتی ہوں کہ قضا ہونے کا ڈر رہتا ہے، اس کے بعد کھانا، آرام اور پھر گھر کے کام کاج، گھر میں کوئی ماسی نہیں ہے، اس لیے گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا برتن، کپڑوں کی دھلائی وغیرہ میں خود کرتی ہوں۔‘‘ سلسلہ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں حفظہ چوہدری کے اس جواب نے مجھے تبصرے پرمجبورکردیا۔ یقیناً باقاعدگی سے نماز پڑھنا اور گھر کے کام کاج کرنا آج کے دَور میں ایک بڑی بات ہے، وہ بھی اِک ایسے شعبے سے تعلق رکھنے والی خاتون کے لیے، جو خاصا اسلام بے زار ہے۔ میں کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ ’’انٹرویو‘‘ میں ایک دو سوال ایسے بھی شامل ہونے چاہئیں، جن کا تعلق اُخروی زندگی سے ہو، مثلاً آپ دن میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں، صدقہ خیرات وغیرہ کتنا کرتے ہیں اور خدمتِ خلق کے لیے کیا کرتے ہیں، وغیرہ ان سوالات کا مقصد کسی کی اچھائی یا برائی اُجاگر کرنا نہیں، بلکہ لوگوں میں رغبت و شوق پیدا کرنا ہو کہ عمومی طور پر لوگ سلیبرٹیز کو خاصا فالو کرتے ہیں۔ ویسے آپ بُرا نہ منائیں، تو کیا پوچھ سکتا ہوں کہ آپ دن میں کتنی نمازیں پڑھتی ہیں؟ ’’بیوی رے بیوی‘‘ سے متعلق ریحان جبار یوسفانی سے صرف اتنا کہوں گا کہ آخر میں نوٹ لکھ دینے، یعنی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے آپ ’’بلّی‘‘ سے بچ نہیں سکتے۔ منور مرزا نے بالکل ٹھیک لکھا کہ ’’اتحاد وہ پودا ہے، جو صرف قربانی اور محبت و رواداری کی زمین پر پھلتا پھولتا ہے‘‘ جون ایلیا کا میں کبھی بہت دیوانہ تھا، لیکن ان کے حالاتِ زندگی پڑھ کرخاصی مایوسی ہوئی۔ (عبدالسلام صدیقی، نارتھ کراچی،کراچی)
ج: آپ کی رائے اپنی جگہ، ہمارے خیال میں کسی سے اس قسم کے سوالات پوچھنا کہ کتنی نمازیں پڑھتے ہیں، صدقہ، خیرات کرتے ہیں یا نہیں، خاصی معیوب سی بات ہے کہ یہ تو خالصتاً اللہ اور بندے کے تعلق کا معاملہ ہے۔ کوئی سلیبریٹی اگر دورانِ گفتگو اپنے دینی، مذہبی خیالات کا اظہار کرنا چاہے، تو ہمیں شایع کرنے میں قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن خود سے ایسے سوالات کرنا عجیب ہی معلوم ہوگا۔ اور جہاں تک ہمارے نماز پڑھنے کا تعلق ہے، تو دن میں کتنی نمازوں کا کیا سوال؟ پانچ نمازیں فرض ہیں، تو پانچ تو لازماً پڑھی ہی جاتی ہیں بلکہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ تہجدّ بھی باقاعدہ ہو جائے اور یہ کوئی بڑا معرکہ نہیں ہے۔ ایک عام گناہ گار مسلمان کو بھی کم از کم پنج وقتہ نماز کا پابند تو ہونا ہی چاہیے۔
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا
بلوریں آنکھیں، نازِانداز، حُسن، زیبائی… ستون تھامے کھڑی خُوب صُورت ماڈل دل کو بےحد بھائی۔ رشتے داروں کے حقوق کے دونوں حصّے ہی زبردست تھے۔ ’’پلاسٹک آٹا‘‘ سے متعلق رپورٹ بہت ہی شان دار رہی۔ ’’خانوادے‘‘ کے باہمّت باپ، باکمال بیٹیوں سے ملاقات کی تو کیا ہی بات ہے۔ حفظہ چوہدری کی ہلکی پھلکی باتیں بہت پسند آئیں اور خطوط کی محفل کی کھٹی میٹھی باتیں تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا معلوم ہوتی ہیں۔
(عبدالجبار رومی انصاری، بورے والا، وہاڑی)
بہترین ، یادگار گفتگو
محمود میاں نجمی کی ہر تحریر ’’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘‘ کے مصداق ہوتی ہے۔ انہوں نے حقوق کے سلسلے کو جس ذمّے داری اور محنت سے تیار کیا، اُن ہی کا خاصّہ ہے۔ اسی سلسلے کے آخر میں اگر ’’جانوروں کے حقوق‘‘ پر بھی ایک تحریر ہوجائے، تو کیا ہی بات ہو۔ سانحہ قندوز پر ڈاکٹر سمیحہ قاضی کی تحریر کا جواب نہ تھا اور اس ہفتے میگزین میں سب سے اہم، دل چسپ اور سیر حاصل، امیرِ جماعت اسلامی و سینیٹر سراج الحق کی گفتگو رہی۔ طلعت عمران نے بہت عُمدگی سے، بے حد شائستہ انداز میں اُن سے چیدہ چیدہ سوالات کیے۔ کافی عرصے بعد ایسی بہترین اور یادگار گفتگو پڑھنے کو ملی۔ ویل ڈن طلعت، ویلکم سراج صاحب۔ گوگل، فیس بک سے متعلق سہیل بلخی کی تحریر نے بھی چونکا دیا۔ رائو محمد شاہد، چینی زبان سِکھاتے نظر آئے۔ ’’سُرخاب‘‘ میں جون ایلیا کی تیسری قسط، پچھلی دو اقساط کی نسبت زیادہ دل چسپ تھی۔ اور ’’پیارا گھر‘‘ میں اس مرتبہ کچھ توجّہ نظر آئی کہ تینوں تحریریں موقع محل کے اعتبار سے ٹھیک تھیں۔
(چاچا چھکن، گلشن اقبال ،کراچی)
ج: طلعت عمران کے لیے گئے انٹرویو سے متعلق ہماری رائے بھی، آپ کی رائے سے کچھ مختلف نہیں۔ واقعی طلعت نے اس انٹرویو پر خاصی محنت کی۔ اور ’’جانوروں کے حقوق‘‘ پرمضمون بھی آپ کے کہنے سے پہلے لکھوایا جا چکا ہے۔
خطرناک حملوں کے باوجود
اُمید کرتی ہوں کہ آپ ہمارے خطوط کے ذریعے ہونے والے، اُردو املا کی غلطیوں کے کئی خطرناک حملوں کے باوجود بخیر و عافیت ہوں گی۔ ہمیشہ کی طرح اخبار کے گھر میں اینٹری مارتے ہی سن ڈے میگزین سب سے پہلے ہمارے ہاتھ آیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے شروعات کی، تو نواب زادہ صاحب کی نوابی سے واسطہ پڑا۔ ہفتے کی چٹھی میں چاچا چھکن کا تبصرہ خوب تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’شوہر کے حقوق‘‘ کے بارےمیں پڑھ کر کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ طلعت عمران کی، طلسماتی شخصیت ’’جسٹن ٹروڈو‘‘ کے بارے میں تحریر لاجواب رہی۔ سُرخاب کی تعریف کے لیے تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ عرفان جاوید کی تحریریں سیدھی دل میں اُترتی ہیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں ایوب کھوسہ کا انٹرویو پڑھ کر بہت مزہ آیا اور ناقابلِ فراموش کی دونوں تحریریں بھی خُوب تھیں جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو ہے ہی ہمارا صفحہ، واہ کیاشان دار کھٹے میٹھے خطوط اور آپ کے جوابات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ڈائجسٹ کے لیے ایک تحریر بھیج رہی ہوں، قابلِ اشاعت ہو تو شامل کر لیجیے گا۔
(بتول عصمت،حاصل پور،بہاول پور)
ج:اگرآپ کے اُردو املا کے اس قدرخطرناک حملوں سے ہم کسی طور بچ ہی رہے ہیں، تو کیا ضروری ہے کہ انچارج، صفحہ ڈائجسٹ ضرور ہی گھائل ہوں۔
اتنا بڑا انٹرویو
سراج الحق کا انٹرویو تین صفحات پر کیوں تھا؟ کوئی بھی انٹرویو ایک صفحے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے۔ اتنا بڑا انٹرویو پڑھ کر ہم بور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے خطوط تو ایڈٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ اِن سیاست دانوں کے انٹرویوز بھی ایڈٹ کیا کریں۔
(نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد،کراچی)
ج:ہمارا خیال ہے، آج آپ کو کوئی جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں کہ اپنا خط دیکھ کر ہی آپ بہت کچھ سمجھ گئے ہوں گے۔
کم صفحات میں بھی
وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کب دن، ہفتے، مہینے،یہاں تک کہ سال گزرجاتاہے۔سنڈے میگزین ہر ہفتےباقاعدگی سےلیتاہوں،مگرکبھی زیادہ مصروفیات کے باعث شمارے جمع ہو جاتے ہیں، مکمل طور پر پڑھ نہیں پاتا، تو پھر کسی روز وقت نکال کے سب ایک ساتھ پڑھتا ہوں۔ بلاشبہ، ہر ہفتے ہی جریدے کے کم صفحات میں بھی خوب معلومات جمع ہوتی ہیں، خاص طور پر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ تو مثالی ہے اور یہ خادم ملک کے فضول خط نہ ہی شایع کیا کریں، تو اچھا ہے۔
(محمّد عثمان، شاہ پور چاکر)
ج:ارے…یہ تو’’نواب صاحب‘‘کی کچھ ’’بیستی‘‘سی نہیں ہوگئی…!!
فی امان اللہ
نجمی صاحب کے علمی خزانے سے ہدایت کا جھرنا، چشمہ ہر خاص و عام کو مستفید کر رہا ہے۔ کوئی دُنیا کے اَسرار سیکھ رہا ہے، تو کوئی آخرت کے رموز۔ بہرکیف، یہ چشمۂ ہدایت اب صدقہ ٔ جاریہ بن چکا۔ ادبی لحاظ سے دیکھا جائے، تو منظر نگاری، مکالمہ نگاری، کردار سازی کے ساتھ ساتھ تحریر کی سلاست و روانی بھی قابلِ تعریف ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ منور راجپوت، مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کرتے ہیں اور خود کو صحیح معنوں میں مُلک و قوم کا ’’راجپوت‘‘ ثابت کرتے ہیں۔ منور مرزا اپنی ذہانت و فطانت سے مختلف مسائل کو ضرور اُجاگر کرتے نظر آتے ہیں، مگر حیرت ہے کہ مسلسل عالمی اُفق پر پرواز کرکرکے بھی اب تک تھکے نہیں۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات باوجود آپ کی تحریر کے، اس تاثر سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، جو کچھ عرصہ قبل تک اس سلسلے کا خاصّہ تھا۔ ذیابطیس کے علاوہ بھی دیگر بیماریوں سے متعلق مضامین شامل ہونے چاہئیں، مثلاً کزنز میرجز کے نقصانات، بانجھ پن (خواتین و حضرات دونوں میں ) بواسیر، جِلدی امراض، ناک کی ہڈی کا بڑھنا، بالوں کے مسائل اور بہت سے ایسے امراض پر، جو توجّہ کے طالب ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے صفحے میں بھی کچھ بہتری لائیے۔ کسی حد تک روایتی اور بھیڑ چال کا شکار لگنے لگا ہے۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ کی کارکردگی بہتر ہے۔ ڈائجسٹ بس گزارے لائق ہوتا ہے۔ بور، گنجلک ناولز شایع کرنے سے بہتر ہے کہ نہ ہی شایع کیے جائیں۔ ہاشم ندیم کے بعد تو کوئی بھی رنگ نہ جماسکا، البتہ عرفان جاوید اپنے اندازِ تحریر میں دبستان ہیں۔ اور شاباشی کے مستحق بھی۔ قمر عباس بھی اچھا لکھتے ہیں، لیکن خاصا ثقیل لکھتے ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کچھ خاموش سا ہوگیا ہے۔ وہ رونق، چہل پہل نہیں نظر آتی۔ ہی ہی ہی… کھی کھی کھی… ہاہاہا … ٹھی ٹھی ٹھی… کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ خادم ملک تو کچھ اوور ایکٹنگ کا شکار لگتے ہیں۔ اکثر ا عتراضات بے کار ہی کرتے ہیں، البتہ ان کو آپ کی ڈانٹ ڈپٹ، پی ٹی وی کی عشرت ہاشمی کی یادتازہ کردیتی ہے۔ لاپتا افراد کا تو سُنا تھا، یہ مضامین کب سے لاپتا ہونے لگے۔ پچھلے برس فادرز ڈے، رمضان، عید اور حجاب ڈے پر مضامین بھیجے تھے، ہنوز لاپتا ہیں۔ ناقابلِ اشاعت میں بھی نام تلاش کیا، مگر مِلا نہیں۔ اب آپ بتادیں، مزید صبر کروں یا کہیں اور پوسٹ کردوں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ تو سدا بہار ہے۔ متفرق بس مِلا جُلا سا ہے۔ معذرت، خط طویل ہوگیا۔ نجمی صاحب سے گزارش ہے کہ ’’اقلیتوں کے حقوق‘‘ پر بھی کچھ لکھیں۔ اور خطوط نگار دوستو! پلیز، ذرا دل چسپ اور پُرمزاج خطوط لکھنےکی کوشش کریں کہ آپ کی باتیں، تبصرے، اس اداس، بوجھل زندگی میں، لبوں پر ہنسی نہ بھی لائیں، تو کم ازکم مسکراہٹ ضرور بکھیر دیتے ہیں۔ (عندلیب زہرا، راول پنڈی)
ج:کہیں اور پوسٹ نہ کریں، ہمیں ہی دوبارہ بھیج دیں کہ آپ کی کوئی بھی تحریر فی الحال ہمارے پاس پینڈنگ میں نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے، پاکستان پوسٹل سروس کا، آپ کی تمام تحریروں کا لفافہ (کہ آپ ہمیشہ الگ الگ تحریریں بھیجنے کے بجائے پورا پلندہ ایک ساتھ ہی بھیجتی ہیں) یقیناً اُسی کی نذر ہوگیا ہے۔
٭ مَیں سنڈے میگزین باقاعدگی سے پڑھتا ہوں اور اسے بے حد پسند بھی کرتا ہوں۔ (صابر وٹوزئی)
ج: جی ، بہت شکریہ۔
٭ ’’پانچواں موسم‘‘ کی اشاعت نے مزید عرضِ تمنّا کا حوصلہ دے دیا۔ میرے مضمون کی ہیڈنگ اور سب ہیڈنگ آپ نے خُوب ہی تراشی۔ دو جملوں میں پورا مضمون سموگیا۔ آپ کی ایڈیٹنگ کا اگر ہم سمیت ایک زمانہ معترف ہے، تو بجا ہی ہے۔ طہورہ شعیب کا مضمون بہت پسند آیا، خاص طور پر یہ جملہ کہ ’’ہم سب اپنے اپنے کمفرٹ زون میں رہنا چاہتے ہیں‘‘۔ اور ہاں، فکریہ مضامین کے ساتھ، ٹھنڈے ٹھار مشروبات بھی آپ نے خوب سجائے، واقعی ٹھنڈ پڑگئی۔ (عزیزہ انجم)
ج: آپ کا شمار تو اب ہماری اچھی لکھاریوں میں ہونے لگا ہے۔ ماشاء اللہ آپ نظم و نثر دونوں پر عبور رکھتی ہیں۔ اُمید ہے، آپ کے ساتھ اب یہ تعلق بنا رہے گا۔
٭ میں میگزین کی تقریبا ًچار سال سے باقاعدہ قاریہ ہوں۔ مجھے شعراء کی زندگیوں سے متعلق جاننے کا بےحد اشتیاق ہے۔ ’’سُرخاب‘‘ سلسلے کے تمام تر مضامین بےحد ذوق و شوق سےپڑھے۔ ایک درخواست ہے، بڑے شعراء کا کلام بھی باقاعدگی سے شایع کرنے کا اہتمام کریں ۔
(خنساء رسول)
ج: فی الحال تو ہم صفحات کی کمی کا شکار ہیں۔ کوئی نیا سلسلہ شروع یا پرانا بھی بحال کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں۔ اسی لیے ابھی تو نو آموز شعراء کے کلام (’’جو ڈائجسٹ‘‘ میں شایع ہو رہا ہے) ہی پر اکتفا کیجیے۔ ہاں، اگر کبھی صفحات کی تعداد بڑھ گئی تو ’’جو دل میں اُترجائے‘‘ کی اشاعت کے اہتمام کی بھی کوشش کریں گے۔
٭ نہ سُرخاب، نہ ناول، نہ پیارا گھر، نہ ڈائجسٹ، نہ کہی اَن کہی، صرف اور صرف سیاست۔ یہ تو زیادتی ہے۔ میگزین کو تو کم از کم ’’سیاست‘‘ کی نذر نہ کردیں۔ بس، اسٹیفن ہاکنگ سے متعلق مضمون کا جواب نہ تھا۔ میں نے اُن سے متعلق اَن گنت تحریریں پڑھیں، مگر قمر عباس کا اندازِ تحریر و کھرا ہی ہے۔ (نوشین خان، گوجرانوالہ)
ج: جی بے شک، قمر عباس کے اندازِ تحریر کا جواب نہیں۔
٭ میگزین شان دار ہے۔ بہت اعلیٰ، زبردست، ویسے اس جریدے کی سب سے بڑی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس کی ایڈیٹنگ بہت اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے اور کسی ایک آدھ صفحے کی نہیں، پورے میگزین کی۔ (شانزا خان)
ج: ویسے یہ بات تمہیں کیسے پتا چلی کہ ایک عام قاری اتنی تیکنیکی باتیں نہیں سمجھتا۔
The post اصل شناخت ، وقار و احترام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2tQ90g5
via Urdu Khabrain
Comments
Post a Comment