دادی ماں کی کہانی

دادی ماں کی کہانی

دن بھر کی شدید گرمی جھیلنے کے بعد، رات کے پچھلے پہرچلنے والی ٹھنڈی ہوا صحن میں سوئے اہل خانہ کو بہشت میں ہونے کا احساس دلاتی۔ آنگن میں محراب کے کھونٹے پر لگا چھینکا ہولے ہولے ڈول رہاہوتا۔ صراحی اور مٹکوں کی گردنوں میں پڑے موتیے کے ہار بھینی بھینی خوشبو دینے لگتے، مگر یہ کیا؟ کسی نے اچانک میری پسلی کے نیچے ہاتھ ڈال کر اٹھاکے بٹھا دیا۔ شاید یہ گرمیوں کی رات میں آخرِ شب کا سہانا خواب ہو۔ مگر، یہ بگھارے بینگنوں کی خوشبو میرے نتھنوں میں کیوں گھسی جارہی ہے اور جب نوالہ میرے ہونٹوں سے ٹکراتا، تو ساتھ آواز آتی۔ ’’ایک نوالہ، بس ایک، میں نےشام کو دیکھا تھا، تم نے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا۔ بھوکے پیٹ بے چینی رہتی ہے۔ نیند نہیں آتی۔ بس ایک نوالہ۔‘‘ اور ایک نوالے کے چکّر میں دادی ماں جبراً آدھی روٹی کھلا دیتیں، پھر برابر بچھی چارپائی پر چھوٹے بھائی کی شامت آجاتی۔ اس طرح لڑتے جھگڑتے دادی ماں ہم پانچوں بھائیوں کو آدھی آدھی روٹی کھلا دیتیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ شدید حبس اور گرمی میں، ابھی آنکھ لگی ہی ہوتی کہ کانسی کا گلاس ہونٹوں اوردانتوں سے ٹکراتا’’میرا بیٹا….شاباش ایک گھونٹ پانی پی لے۔ گرمی میں دل گھبرا جاتا ہے، شاباش۔‘‘ اور پھر ہمیںآدھا گلاس پانی پلا کر دوسرے بھائیوں پر حملہ آور ہوجاتیں۔ یہ امَر توواقعی بہت تکلیف دہ تھا کہ سوئے تو مشرق کی طرف منہ کرکے، مگر اچانک کسی پہر اس وضاحت کے ساتھ مغرب کی طرف رخ بدل دیا جاتا کہ ’’تم شام سے اسی رخ پر سوئے ہوئے ہو، پہلو تھک جاتا ہے۔‘‘ اب لاکھ دلیل دیں کہ ’’دادی اماں! سوتے ہوئے آدمی خود ہی کروٹ بدل لیتا ہے، یہ قدرتی نظام ہے۔‘‘ مگر جب تک دادی امّاں سیدھے کو الٹا اور الٹے کو سیدھا نہ کردیں، انہیں چین ہی نہیں آتاتھا۔

میری دادی ماں، عظمت بی بی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور، تحصیل کلیریاں، دریائے بیاس کے کنارے واقع گائوں، میرانی افغاناں میں پیدا ہوئیں۔ گائوں میں اسکول کا کوئی تصوّر نہ تھا۔ بس مسجد کے مولوی صاحب سے قرآن شریف پڑھا، جوبعد میں محلّے کی بچّیوں کو پڑھانے کے کام بھی آتا رہا۔ باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود دادی ماں اپنی گفتگو میں ضرب الامثال اور محاورات کا برمحل استعمال کرتی تھیں۔ ایک بار میں نے کہا ’’دادی ماں! آپ اتنے محاورات استعمال کرتی ہیں، مجھے بھی کچھ لکھوائیے۔‘‘ تو انہوں نے فوراً ایک سو سے زائد محاورے لکھوادئیے۔ جو میرے پاس اب تک محفوظ ہیں۔ میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی کے باوجود آج تک ناسور کا علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ دادی کو آج سے پچاس سال پہلے ناسور کا یونانی علاج معلوم تھا۔ جو ان کے پرکھوں میں سینہ بہ سینہ چلا آرہا تھا۔ غریب مریضوں کے لیے وہ اپنے پلّے سے رزّاق پنساری سے دیسی جڑی بوٹیاں منگواکر سیاہ رنگ کا ایک پیسٹ تیار کرتیں، جس کے لگانے سے جلد ہی زخم بھرنے لگتا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے نارمل جِلد نمودار ہوجاتی۔ جیسے کبھی خراش تک نہ آئی ہو۔ دادی ماں حقوقِ نسواں کی بہت بڑی علَم بردارہونے کے ساتھ ایک ایسے جج کی مانند تھیں، جن کے فیصلے کے خلاف کہیں بھی اپیل قابلِ سماعت نہ تھی۔ اگر کسی شوہر کا بیوی سے جھگڑا ہوجاتا، تو فوراً موقعِ واردات پر جا پہنچتی۔ پھر غلطی چاہے بیوی ہی کی کیوں نہ ہو، فیصلہ شوہر کے خلاف ہی جاتا۔ بے چارے شوہر کی وہ درگت بنتی کہ اسے اس عہد کے ساتھ معافی نامہ جمع کروانا پڑتا کہ آئندہ محتاط رہے گا۔

دادی اماں کو رحلت فرمائے چالیس سال گزر چکے ہیں۔ کبھی کسی دفتری کام کے سلسلے میں لاہور جانا ہوتا ہے، تو محض ایک رات اس مکان میں گزارنے کے لیے ساہیوال بھی ضرورجاتا ہوں، جو اب بڑی بڑی دکانوں اور شو رومز میں گھر چکا ہے۔ اس کا فرش اب مٹی کا نہیں رہا، جسے دادی ماں چکنی مٹی سے لیپتی تھیں، وہاں اب رنگین ٹائلز نصب ہوچکے ہیں۔ مٹی کے چولہے کی جگہ امریکن کچن بن چکا ہے۔ اب محراب ہے، نہ اس میں جھولنے والا چھینکا۔ نہ کوئی صراحی ہے، نہ مٹکا۔جدیدترین سہولتوں سے آراستہ اس مکان میں، مَیں اسی جگہ چار پائی ڈال کے لیٹ جاتا ہوں، جہاں کبھی بچپن میں سویا کرتا تھا۔ اس امید پر کہ شاید خواب میں سہی، کانسی کا گلاس اس آواز کے ساتھ میرے منہ سے ٹکرائے، ’’میرا بیٹا، صرف ایک گھونٹ پانی پی لے۔ گرمی میں دل گھبرا جاتا ہے۔ شاباش میرا بیٹا شاباش…..صرف ایک گھونٹ….‘‘

The post دادی ماں کی کہانی appeared first on Urdu Khabrain.



from Urdu Khabrain https://ift.tt/2PO2fFP
via Urdu Khabrain

Comments

Popular posts from this blog

فی یونٹ بجلی 62پیسے بڑھانے کی درخواست نیپرا کو ارسال

انگلینڈ نے جنوبی افریقہ کو 104 رنز سے ہرا دیا